سال 2021 کے لئے ادب کا نوبیل انعام ناول نگار عبد الرزاق گرناہ کو دیا گیا ہے ۔
عبدالرزاق گرناہ برطانیہ میں مقیم ہیں ۔ تنزانیہ میں 1948 میں پیدا ہوئے ۔ ان کا بچپن زنزیبار جزیرہ میں گزرا 1960 کی دہائی میں پناہ گزین کی حیثیت سے برطانیہ پہنچے ۔
ایوارڈ کا اعلان کرتے ہوئے ججز پینل کا کہنا تھا کہ عبدالرزاق گرناہ نے اپنی تحریروں کے ذریعہ نو آبادیات ، ثقافتوں کے اثرات کے برے میں جو لکھا وہ بہت پر اثر تھا ۔ ان کی تصنیفات کا موضوع نو آبادیات اور مہاجرین کے مسائل تھے ۔ عبدالرزاق گرناہ نے استعماریت کے اثرات اور پناہ گزینوں کے انجام کے بارے میں سمجھوتہ نہ کرنے اور دردمندانہ انداز میں مسائل کو اجاگر کیا ۔ ان کی مختلف براعظموں اور ثقافتوں میں افراد اور معاشروں پر نقل مکانی کے اثرات کے بارے میں بلند پایہ ادبی تصنیفات کا اعتراف کرتے ہوئے ایوارڈ کا حقدار قرار پایا ہے ۔
عبدالرزاق گرناہ برطانیہ کی کینٹ یونیورسٹی میں مابعد نوآبادیاتی ادب کے پروفیسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں ۔ ان کے دس ناولز اور کئی مختصر کہانیاں شائع ہوچکی ہیں ۔ انھوں نے متنازعہ مصنفین سلمان رشدی اور وی ایس نائپال پر بھی مضامین لکھے ہیں ۔
عبدالرزاق کی مادری زبان سواحلی ہے ۔ انہوں نے 21 سال کی عمر میں انگریزی میں لکھنا شروع کیا تھا جسے انہوں نے مستقل بنیادوں پر اپنا لیا ۔ عبدالرزاق گرناہ ، نجیب محفوظ ، نیڈین گورڈمر ، وول سوینکا کے بعد چوتھے افریقی ہیں جنہیں نوبیل انعام کا حقدار قرار دیا گیا ہے ۔ عبدالرزاق گرناہ نے اس حوالہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہجرت ، مسافت اور دربدری ایسے موضوعات ہیں جو آج کی دنیا سے جڑے ہیں ۔ میں نے اپنی تصنیفات کے لئے ان موضوعات کو چنا تاکہ ان سے جڑے سنگین مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے ۔ لوگ مررہے ہیں ، دنیا بھر میں انسان تکلیف میں مبتلا ہیں ۔ ہمیں انسانی جانوں اور جذبات کی قدر کرتے ہوئے ان معاملات سے انتہائی دردمندی ، احسان مندی اور مہربانی سے نبٹنے کی ضرورت ہے ۔
نوبیل کمیٹی پر حالیہ کئی برسوں سے یہ دباؤ بڑھتا جارہا ہے کہ وہ یورپ اور سفید فام ادیبوں کے علاوہ دنیا کے دوسرے خطوں کے لوگوں کی تصنیفات کو پرکھ جانچ کر ایوراڈ دینے کے لئے غور کریں ۔
تبصرے بند ہیں.