The news is by your side.

اولمپک گیمز میں پاکستان کی کارکردگی ایک جائزہ

ٹوکیو اولمپک اپنی چمک دمک کے ساتھ اختتام پذیر ہوئے ۔

امریکا ، چین اور جاپان میڈلز کی دوڑ میں سب ممالک کو پیچھے چھوڑ گئے ۔ ان ممالک کا بجٹ اور کھلاڑیوں کو دی جانے والی سہولیات نے انہیں اقوام عالم میں اتنی بڑی کامیابی سے ہمکنار کیا لیکن پوائنٹ ٹیبل پر سب سے آخر میں براجمان ملک نے سب کو حیران کردیا ہے ۔

یہ کوئی اور نہیں مشرق وسطی کا خانہ جنگی کا شکار ملک شام ہے ۔ پچھلے دس سالوں سے خانہ جنگی کا شکار شام کا 1 کانسی کا تمغہ امریکا کے 39 سونے کے تمغوں کے برابر ہے ۔ ناکافی سہولیات اور ملکی صورتحال میں ویٹ لفٹر مان اسعد کا تمغہ جیتنا کسی طور نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔

مان اسعد نے جدید سہولیات اور ماہر ٹرینرز کے زیر نگرانی ٹریننگ نہیں کی ۔ ان کے ٹرینر ان کے بڑے بھائی تھے ۔ مان کے والد بھی باڈی بلڈر رہ چکے ہیں ۔ جبکہ ان کے ایک بھائی اس خانہ جنگی کا شکار ہوچکے ہیں ۔ شام کو سترہ سال بعد اولمپک پوڈیم پر کھڑا ہونے کا موقع ملا ۔

پاکستان شام سے کہیں بہتر حالات رکھتا ہے ۔ قومی بجٹ میں کھیلوں پر خرچ کئے جانے کے لئے رقم بھی مختص کی جاتی ہے پاکستان کا ناکام و نامراد واپس آنا اپنے آپ میں ایک سوالیہ نشان ہے ۔ بجٹ کے شفاف استعمال اور اداروں کی اجارہ داری و اقربا پروری پر بحث ناگزیر ہوچکی ہے ۔

پاکستان میں اٹھارویں ترمیم سے وفاقی وزارت کھیل کو ختم کردیا گیا تھا ۔ کھیل کے معاملات ہر صوبہ اپنے طور پر دیکھنے کے لئے خود مختار تھا ۔ البتہ ملک میں کھیلوں کے معاملات بین الصوبائی وزارت دیکھتی ہے ۔ بین الصوبائی رابطہ کی وفاقی وزیر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا پاکستان اسپورٹس بورڈ کی سربراہ بھی ہیں ۔

ڈاکٹر صاحبہ بتاتی ہیں کہ کھیلوں کا غیر ترقیاتی بجٹ ایک سال کا 1 ارب روپے ہے جو بہت کم ہے ۔ اس 1 ارب میں سے 40 فیصد یوٹیلیٹی بلز اور اسٹاف کی تنخواہوں میں خرچ ہوجاتا ہے ۔ باقی جو بچتا ہے اس میں ٹریننگ کیمپس لگتے اور کھلاڑیوں کے مقامی و بین القوامی وزٹ ہوتے ہیں ۔

ڈاکٹر صاحبہ مزید اس بارے میں کہتی ہیں کہ پاکستان کی وفاقی حکومت کو اپنے فنڈز بڑھانے ہونگے اگر پاکستان کوکھیلوں میں آگے جانا ہے تو ورنہ بس اسٹاف کی تنخواہیں ہی پوری ہوتی رہیں گی میدان میں کھلاڑیوں کی کارکردگی صفر ہی رہے گی ۔ صوبائی وزارتوں کو مانیٹر کرنا ہوگا افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ 4 میں سے 3 صوبوں میں کھیلوں کا باقاعدہ کوئی وزیر ہی نہیں ہے ۔

پاکستان میں آخری اسپورٹس پالیسی 2005 میں بنی تھی ۔ نئی اسپورٹس پالیسی تیار ہے لیکن ابھی تک وزیر اعظم کو پیش نہیں کی گئی ہے ۔ اسپورٹس پالیسی کو پیش کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ شخصیات ہیں جو نہیں چاہتیں کہ ان سے جواب طلبی کی جائے وہ چاہے کسی ایسوسی ایشن کا سربراہ ہو یا فیڈریشن کا ۔

ایسے میں طلحہ طالب ، ارشد ندیم جیسے نوجوان جس کوشش سے ٹاپ 10 میں جگہ بنا پاتے ہیں وہ پاکستان میں کام کرنے والی اسپورٹس کی فیڈریشنز اور ایسوسی ایشنز کے منہ پر ایک تمانچہ ہیں ۔ اگر فنڈز صرف تنخواہوں اور پینشن یافتہ ملازمین کو برسر روزگار رکھنے کے لئے ہی استعمال ہونے ہیں تو ان فیڈریشنز اور ایسوسی ایشنز کو ختم کرکے ملکی اخراجات میں کمی سے عوام کو ہی ریلیف دے دیا جائے ۔

تبصرے بند ہیں.