انٹرنیشنل فیڈریشن آف لائبریری ایسوسی ایشنز اینڈ انسٹی ٹیوشنز کے جریدہ میں شائع ہونے والی البرٹا ینورسٹی کے ایک محقق کی تحقیق جو 138 ممالک میں نو ہزار چھ سو ستاون غلط معلومات کے وسیع ٹکڑوں کو دیکھ کر مرتب کی گئی ہے ۔
اس تحقیق میں گزشتہ سال یکم جنوری سے رواں سال یکم مارچ تک پھیلائی گئی معلومات کو پرکھا گیا جس میں انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں کی خبریں بھی شامل تھیں ۔ محقق نے اس تحقیق کے مطالعہ میں استعمال کیے گئے اعداد و شمار پوائنٹرز کی عالمی فیکٹ چیکنگ کی ویب سائٹ سے لئے ۔ اس ویب پورٹل میں اس وقت کووڈ 19 سے متعلق غلط معلومات کا سب سے بڑا ذخیرہ موجود ہے ۔
غلط معلومات پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ سوشل میڈیا کو قرار دیا گیا ۔ جہاں کی 85 فیصد معلومات کو غیر مصدقہ اور جھوٹ پر مبنی پایا گیا ۔ تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ کلی طور پر 91 فیصد گھڑی ہوئی خبریں انٹرنیٹ جس میں سوشل میڈیا بھی شامل ہے پھیلائی گئیں ۔ وہ ممالک جہاں سے یہ غیر مصدقہ خبریں زیادہ انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر پھیلیں ان میں بھارت 18 فیصد جعلی خبروں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے ۔ اس کے بعد برازیل دوسرے اور امریکا تیسرے نمبر پر جعلی خبروں کے پھیلاؤ میں شامل رہا ۔
غلط اور غیر مصدقہ معلومات کے پھیلاؤ میں اس ملک کی کرونا سے متعلق خراب صورتحال ایک وجہ بنی ۔ وبا کے دوران ہلاکتوں کی تعداد نے جعلی خبروں کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ۔ بھارت میں کرونا سے متعلق سامنے آنے والی ہر 6 میں سے 1 خبر جھوٹی تھی ۔
تبصرے بند ہیں.