1960 کی دہائی میں نصرت نے اپنے والد استاد فتح علی خان کی وفات کے بعد قوالی کی باقاعدہ تربیت اپنے چچا استاد مبارک علی خان اور استاد سلامت علی خان سے لی ۔ 70 کی دہائی میں اپنے چچا استاد مبارک علی خان کے انتقال کے بعد خاندان کی سربراہی نصرت کی ذمہ داری بنی ۔
13 اکتوبر 1948 میں فیصل آباد میں پیدا ہونے والے نصرت فتح علی خان نے فیصل آباد کے مشہور جھنگ بازار کے مشہور صوفی بزرگ لسوڑی شاہ کے دربار سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا ۔ اس نوجوان قوال کے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ آگے چل کر شہنشاہ قوال بنے گا ۔
پٹیالہ گھرانے کا یہ سپوت بچپن سے ہی موسیقی کو اپنا جنون بنائے ہوئے تھا محض 10 برس کی عمر میں طبلہ پر مہارت اس کے جنون کا ثبوت تھی ۔ طبلہ پر ان کی مہارت ایسی تھی کہ گانے والا تھک جایا کرتا تھا پر ان کی انگلیاں نہیں رکتی تھیں ۔
خان صاحب کی ایک خصوصیت کلام کا انتخاب بھی تھی ۔ وہ ہمیشہ ایسا کلام گائیکی کے منتخب کرتے جو عوامی پزیرائی حاصل کرلیتا تھا ۔ نصرت کی سولو قوالیاں بھی کافی مقبول ہوئیں ۔ سولو گانے کے حوالہ سے یہ واقعہ مشہور ہے کہ ایک دن نصرت اپنے ہمنواؤں سے کافی پہلے ریکارڈنگ اسٹوڈیو پہنچ گئے ۔ کافی دیر انتظار کے بعد بھی کوئی ہمنوا نا پہنچ سکا تو اسٹوڈیو کے مالک نے خان صاحب سے سولو گانے کا کہا جس پر خان صاحب کافی پریشان ہوئے ۔ اسی وقت ایک غزل لکھوائی گئی اور یوں خان صاحب کی سولو گائیکی کا آغاز ہوا ۔ ان کی سولو غزلیات میں سن چرخہ دی مٹھی مٹھی کوک بہت زیادہ مشہور ہوئی ۔
ان کے ساتھی فن کار بتاتے ہیں کہ ہم دنیا کے کسی بھی کونے میں کتنی لمبی پرفارمنس کے بعد ہوٹل پہنچے ہوں ۔ خان صاحب کہتے میرا ہار مونیم میرے کمرے میں پہنچا دیں ۔ ہم لوگ اپنی نیند پوری کرکے اٹھتے تو خان صاحب کو ریاض میں مصروف پاتے تھے ۔ وہ سوتے وقت بھی اپنا ہارمونیم بیڈ پر ساتھ رکھکر ہی سوتے تھے اور نیند میں بھی ایک انگلی اس پر رکھی ہوتی ۔
ان کے جاننے والے بتاتے ہیں کہ خان صاحب ایک درویش صفت ، انتہائی مخلص اور عزت دینے والے انسان تھے ۔ وہ بہت ایماندار ، حساس اور نفیس طبیعت کے مالک تھے ۔ وہ اکثر قوالیاں بغیر پیسوں کے بھی گا لیا کرتے تھے ۔ جس کسی نے خلوص سے محفل یا پروگرام کی درخواست کی انہوں نے بنا پیسوں کے اس کی بات مانی ۔ نا پیسوں کا تقاضہ کیا نہ اس حوالہ سے کبھی پوچھا ۔ بس چپ کرکے پرفارم کر آئے ۔
قوالیوں کے سب سے زیادہ 125 البم ریکارڈ کروانے پر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں نام درج کروانے کا اعزاز بھی خان صاحب کو حاصل ہے ۔
نصرت فتح علی خان 16 اگست 1997 میں جگر کے مسائل کی وجہ سے لندن کے ایک ہسپتال میں انتقال کرگئے تھے ۔ آج ان کی 24 ویں برسی منائی جارہی ہے ۔
تبصرے بند ہیں.