اسلام آباد میں منعقد کئے گئے سیمینار بہ عنوان ایک پرامن اور خوشحال جنوبی ایشیاء سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ سرد جنگ سے دنیا کو نقصان ہی ہوا ہے اس لئے پاکستان کو اس میں نہیں پھنسنا چاہئیے بلکہ کوشش کرنی چاہئیے بلکہ عالمی اختلاف کے خاتمہ کے لئے کام کرنا چاہئیے جیسے ہم نے سعودی اور ایران تنازعہ کو ختم کرنے کے لئے کیا ۔
ملک میں تھنک ٹینکس نہیں ہیں اس کمی کی وجہ سے ہم اپنا بیانیہ دنیا کے سامنے رکھنے میں ناکام ہیں ۔ میڈیا کو ایجوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے ۔ میں جب دیکھ رہا ہوتا ہوں ٹاک شوز تو معلوم ہوتا ہے کہ پروگرام کے میزبان کی اس ٹاپک پر اپنی کوئی ریسرچ نہیں وہ ادھر ادھر کی باتیں کوٹ کررہا ہوتا ہے ۔ وہ اپنے پروگرام میں ملکی بیانیہ کو پیش کرنے میں ناکام ہوتا ہے ۔ باہر سے آئیڈیاز لینے سے ہم عوام کو بھی گمراہ کرتے ہیں ۔ غیر ملکی میڈیا بھی اٹکل پچو بات کرتا ہے ۔ اسے نہ ہماری ثقافت کا پتہ ، نہ وہ یہاں کے عمومی حالات ہی جانتے ہیں لیکن انہیں پھر بھی تبصرہ کرنا ہے ۔ جنگ کسی مسلہ کا حل نہیں ، غلط اندازوں کیوجہ سے نوبت جنگ تک پہنچتی ہے ۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئیے کہ مکالمہ ہوتا رہے ۔ مکالمہ ہی جنگ کا واحد حل ہے ۔
ہماری حکومت نے موسمیاتی تبدیلیوں پر عوامی شعور بیدار کیا ۔ گلیشئیرز کا پگھلنا ایک ہنگامی صورتحال ہے جس پر پاک انڈیا کو ملکر سوچنا اور کام کرنا چاہئیے تھا لیکن افسوس ہم مستقبل کے خطروں سے بے نیاز ابھی تک لسانی و علاقائی جھگڑوں میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ 60 کی دہائی میں ملکی پلاننگ کمیشن نے قابل ستائش کام کیا اور ملکی عوامی منصوبوں کو ملائیشیا اور کوریا جیسے ممالک کے لئے رول ماڈل بنایا وہ ہماری نقالی سے کہاں پہنچ گئے اور ہم کہاں آگئے ۔
تبصرے بند ہیں.