The news is by your side.

پاکستان کے قومی ترانہ کی کہانی

13 اگست 1954 میں پاکستان کا قومی ترانہ پہلی بار نشر کیا گیا جس کے بول ابو الثر حفیظ جالندھری نے لکھے تھے اور دھن احمد غلام علی چھاگلہ نے تیار کی تھی ۔

قومی ترانہ کو ترتیب دینے کا کام قیام پاکستان سے ہی شروع ہوگیا تھا لیکن یہ مرحلہ نہایت طویل ثابت ہوا ۔ ملک کے ترانہ کے انتخاب میں سب سے بڑی رکاوٹ زبان کی تھی کیونکہ ملک میں مختلف بولیاں بولی جاتی ہیں ۔

پاکستان کے قومی ترانہ کے لئے سورہ فاتحہ کو بھی منتخب کرنے کی بات ہوئی تھی ۔ اس کے لئے ایک برطانوی موسیقار نے پیانو پر دھن بھی تیار کی تھی ۔

پھر اس خیال کو مسترد کرتے ہوئے شعراء کو ترانہ لکھنے کی دعوت دی گئی ۔ اس حوالہ سے ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جو موصول شدہ ترانوں کا جائزہ لیکر ان کو موسیقی کی ترتیب کے لئے تیار کرنے پر مامور تھی ۔

پاکستان کے پہلے قومی ترانہ کے خالق جگن ناتھ آذاد کو کہا جاتا ہے لیکن اس حوالہ سے کوئی مصدقہ معلومات ، کسی سرکاری کاغذ ، نوٹیفیکیشن کا ریکارڈ نہیں ملتا ۔

قومی ترانہ کمیٹی کو ملک کے طول و عرض سے ترانے موصول ہونا شروع ہوگئے تھے ۔ حفیظ جالندھری نے ایک موقر ماہنامہ کے مضمون میں تحریر کیا تھا کہ ترانہ کمیٹی کو مجموعی طور پر 200 سے زائد نظمیں اور 63 کے لگ بھگ دھنیں موصول ہوئیں تھی ۔

قومی ترانہ کے ماہرین تمام خصوصیات جو ایک ترانہ کا خاصہ ہوتی ہیں جیسے زبان ، بحر ، دھن ، موسیقیت ، معیارسے متعلق بہت محتاط تھے کہ ان میں سے کوئی چیز کم نا ہو اور ان کے حسین امتزاج سے ایک ایسا ترانہ تخلیق کیا جاسکے جو ملک و ملت کے جذبات کا ترجمان ہونے کا حق ادا کرسکے ۔

21 اگست 1949 کو احمد غلام علی چھاگلہ کی تیار کردہ دھن قومی ترانہ کے لئے منظور کی گئی ۔ اس دھن کو بہرام رستم جی نے پیانو پر ریکارڈ کروایا تھا ۔ اس دھن کا دورانیہ 80 سیکنڈ تھا ۔ اسے بجانے میں 21 آلات موسیقی اور 38 ساز استعمال ہوئے تھے ۔

شہنشاہ ایران کی آمد پر پہلی دفعہ پاک بحریہ کے بینڈ کو یہ دھن بجانے کا اعزاز حاصل ہوا تھا ۔ اب مرحلہ تھا ترانہ کے بولوں کا ، اس کے لئے زیڈ اے بخاری نے دھن پہ لکھا اپنا ترانہ پیش کیا تھا جسے کمیٹی نے عوام الناس کی سمجھ سے بالاتر کہکر مسترد کردیا تھا ۔ دوسرا ترانہ حکیم احمد شجاع پاشا اور حفیظ جالندھری کا تھا جسے کمیٹی نے بہتر پایا تھا ۔

اب مرحلہ تھا بولوں کو دھن پر سیٹ کرنے کا ، اس کے لئے تمام ترانوں کو دھن پر سیٹ کرنے کا کام شروع ہوا اور سب سے بہتر دھن حفیظ جالندھری کے بولوں پر بیٹھی ۔

5 اگست 1954 میں کابینہ نے اس ترانہ کی منظوری کو متفقہ طور پر قبول کیا۔

 

تبصرے بند ہیں.