The news is by your side.

بارش خدا کی رحمت ہوتی ہے مینہ برستا ہے تو چرند پرند سب خدا کی شکرگزاری کرتے ہیں ۔ لیکن اب المیہ یہ ہے کہ  ماحولیاتی  آلودگی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ بارش کے پانی کے ساتھ تیزاب کی ملاوٹ ہونے لگی ہے اور موجودہ بارشوں کو تیزابی بارش کہا جاسکتا ہے ۔

صاف ستھری یا قدرتی بارش میں تھوڑا بہت تیزاب شامل ہوتا ہے کیونکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ(CO2)کرہ ہوائی کا ایک اہم جزو ہے جو پانی میں حل ہونے کی زبردست صلاحیت رکھتی ہے ۔ بارش کے دوران یہ برسنے والے پانی میں حل ہو جاتی ہے اور یوں عام بارش کے پانی میں بھی معمولی سی تیزابیت آ جاتی ہے ۔

جب ہم کوئلہ اور تیل جلاتے ہیں تو ان کے جلنے سے فضا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ گیس شامل ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں میں بھی کاربن مونو آکسائیڈ اور کاربن ڈائی اکسائیڈ موجود ہوتی ہیں جو ہوا میں شامل ہو جاتی ہیں ۔ جب ہوا میں موجود یہ گیسیں بارش کے پانی میں حل ہوتی ہیں تو اس کی پی ایچ ویلیو کم کر کے اسے تیزابی خصوصیات کا حامل بنا دیتی ہیں ۔

البتہ جن بارشوں کو ہم خاص طو رپر تیزابی بارشیں کہتے ہیں وہ ہوا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ گیس کی زیادتی کی وجہ سے ہوتی ہیں ۔ جب بارش کا پانی برستا ہے تو ہوا میں موجود سلفر ڈائی آکسائیڈ بھی اس میں حل ہو جاتی ہے اور سلفیورک ایسڈ یعنی گندھک کا تیزاب بناتی ہے ۔ ہوا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ گیس کی مقدار جتنی زیادہ ہو گی بارش کی تیزابیت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی ۔

تیزابی بارش میں سلفیورک ایسڈ زمین پر برستا ہے اور کئی خطرناک بیماریوں کی وجہ بنتا ہے ۔ ان میں مختلف اقسام کی الرجی، آنکھوں کی سوزش اور سرخ ہو جانا، پھیپھڑوں کی باریک نالیوں کا لمبے عرصے کے لیے سکڑ جانا (کرونک برونکائٹس) پھیپھڑوں اور قولون(colon)کا سرطان وغیرہ شامل ہیں ۔

اس کے علاوہ گاڑیوں اور کارخانوں سے نکلنے والے نائٹروجن اور آکسیجن پر مشتمل مختلف مرکبات (نائٹروجن آکسائیڈ) بھی گیس کی شکل میں ہوا میں شامل ہوتے رہتے ہیں ۔ تیزابی بارش کے دوران یہ بھی پانی میں حل ہو کر تیزاب کی شکل میں زمین پر برستے ہیں ۔ یہ انسانی جسم میں خلیوں کے کاموں میں رکاوٹ ڈال کر کئی بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں ۔

تیزابی بارشیں بہت سے دوسرے سنجیدہ مسائل کو بھی جنم دیتی ہیں ۔ ان کی وجہ سے جھیلوں کا قدرتی ماحول تباہ ہو رہاہے ۔ تیزابی بارش کے پانی میں پارے (مرکری) کے بخارات بھی شامل ہو سکتے ہیں یوں جھیلوں میں پارہ جمع ہو جاتا ہے جو کیمیائی عمل کر کے میتھائل مرکری میں تبدیل ہو جاتا ہے اور جھیلوں کے پانی کو زہر آلود کر دیتا ہے ۔ اس طرح یہ جھیلوں میں موجود جانداروں کی زندگی کے لیے خطرناک ہوتا ہے اور ان کی افزائش نسل کو متاثر کرتا ہے ۔

تیزابی بارشوں اور ان کے نقصانات کی روک تھام کے لیے کئی منصوبے بنائے گئے ہیں ۔ مغرب میں بنائے جانے والے منصوبوں میں چند ایک اتنے مہنگے ہیں کہ عام آدمی کی دسترس میں نہیں لیکن نائٹروجن آکسائیڈ کی ہوا میں منتقلی روکنے کے لیے اب گاڑیوں میں ”کیٹالیٹک کنورٹرز“(Catalytic converters) نصب کیے جانے لگے ہیں جو بڑی حد تک نائٹروجن آکسائیڈ کو ہوا میں جانے سے روک لیتے ہیں ۔ اسی طرح گھریلو صارفین بھی اگر ماحول کو صاف ستھرا بنانا چاہتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ ایندھن کے غیر ضروری استعمال سے پرہیز کریں اور اسے کم سے کم استعمال کرنے کی کوشش کریں ۔

 

تبصرے بند ہیں.