سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے عدالت میں صدارتی ریفرینس پر اپنا جواب جمع کروادیا ہے ۔
بار ایسوسی ایشن نے اپنے مؤقف میں کہا ہے کہ آرٹیکل 63 اے میں پارٹی ہدایت کے خلاف ووٹ ڈالنے پر کسی رکن کو نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
وفاقی حکومت کے صدارتی ریفرینس میں سپریم کورٹ سے رائے مانگی گئی تھی کہ آیا وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں پارٹی مؤقف کے خلاف جاکر ووٹ ڈالنے والوں کے ووٹ کی قانونی حیثیت کیا ہے ۔
یہ صدارتی ریفرینس وزیر اعظم کی ہدایت پر پارٹی کے 14 منحرف اراکین کے خلاف پارٹی انحراف کی وضاحت کے ضمن میں دائر کیا گیا تھا ۔
ملک میں تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے قومی اسمبلی کا اجلاس 25 مارچ کو بلوایا گیا ہے ۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آرٹیکل 63 اے اور تحریک عدم اعتماد پر سماعت ایک ہی دن سننے کے احکامات جاری کئے ہوئے ہیں ۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے عدالت میں جمع کروائے گئے اپنے جواب میں لکھا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت پارلیمان میں ووڑ ڈالنا قومی اسمبلی کے کسی بھی رکن کا انفرادی عمل ہے اور اسے اس ھق کے استعمال سے روکا نہیں جاسکتا کسی سیاسی جماعت کو حق نہیں کہ آرٹیکل 95 کے تحت ڈالے گئے ووٹ پر سوال اٹھائے ۔
جے یو آئی نے اپنے تحریری مؤقف میں کہا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی کو اراکین کے ووٹ مسترد کرنے کا کوئی اختیار نہیں ۔ ووٹنگ سے پہلے ہی ریفرینس پر رائے دینا بھی ضروری نہیں اگر سپریم کورٹ نے ووتنگ سے پہلے اپنی رائے کا اظہار کیا تو الیکشن کمیشن کا فورم اپنی وقعت کھودے گا ۔