1990 کی دہائی میں البینی میڈیکل کالج کے محققین نے پہلی بار جانوروں کی باقیات کو ٹھکانے لگانے کے لئے ماحول دوست اور سستا طریقہ ایکوامیشن کورائج کیا ۔
اس عمل میں پانی کے ذریعہ میت کی تدفین عمل میں لائی جاتی ہے ۔ جس میں میت راکھ میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ میت سوزی کے اس عمل میں آگ کی نہیں پانی کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اس عمل کا سائنسی نام الکلائن ہائیڈرو لائسس ہے ۔
برطانیہ میں اس شعبہ میں کام کرنے والی ایک کمپنی کا کہنا ہے کہ میت سوزی کے لئے ایکوامشین سے گرین ہاوس گیسز کا اخراج 35 فیصد کم ہوجاتا ہے ۔ اس پراسس میں میت کے وزن کا تعین کرنے کے بعد اسے پانی اور پوٹاشیم ہائیڈرو آکسائیڈ کے مرکب میں 90 منٹ تک 150 ڈگری درجہ حرارت پر گرم کیا جاتا ہے ۔
اس عمل سے جسم کے ٹشوز تحیلیل ہوجاتے ہیں اور صرف ہڈیاں باقی رہ جاتی ہیں ۔ ان ہڈیوں کو 120 درجہ حرارت پر رکھنے کے بعد کریمو لیٹر نامی مشین کے ذریعہ پیس دیا جاتا ہے ۔ اب اس راکھ کو مرحوم کی وصیت کے مطابق دفن یا پانی میں بہایا جاسکتا ہے ۔
ایکوامشین یا الکلائن ہائیڈرو لائسس ہمارے جسمانی قدرتی نظام کی مصنوعی شکل ہے یعنی جسم جو گلنے میں 20 سال کا عرصہ لے گا اس دورانیہ کو سائنسی عمل سے چند گھنٹوں میں مکمل کرلیا جاتا ہے ۔
2014 میں میت سوزی کا یہ عمل امریکا کی 8 ریاستوں میں قانونی قرار دیا گیا تھا ۔
جنوبی افریقہ کے نوبیل انعام یافتہ آرچ بشپ ڈیزمنڈ ٹوٹو نے اپنی تدفین کے لئے اس عمل کو اختیار کرنے کی وصیت کی کیونکہ وہ ماحولیاتی تحفظ کے لئے کام کررہے تھے ۔
تبصرے بند ہیں.