ملک کی پارلیمانی کمیٹی نے میڈیا میں پھیلی رپورٹس کا نوٹس لیا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ ، متحدہ عرب امارات ، ایران اور سعودیہ عربیہ سمیت متعدد ممالک سے بھاری مقدار میں خطرناک فضلات کو پاکستان میں درآمد کیا جارہا ہے ۔
پارلیمانی کمیٹی کے ایک رکن کے مطابق پاکستان عالمی کچرہ درآمد کررہا ہے جبکہ اس کے پاس عام فضلہ سے خطرناک فضلہ کو الگ کرنے کی ٹیکنالوجی موجود ہی نہیں ۔ عام فضلہ میں کم از کم 14 فیصد تک خطرناک اجزاء پائے جاتے ہیں ۔
پاکستان یہ فضلہ کیوں درآمد کررہا ہے ؟ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے ۔
اس حوالہ سے متعلقہ دستیاب ریکارڈ پر معاملہ کی تحقیقات کی ضرورت ہے ۔
پارلیمانی کمیٹی اس حوالہ سے لاعلم ہے کہ پاکستان میں کس قسم کا خطرناک فضلہ آرہا ہے ۔
پاکستان ماضی میں بھی ترقی یافتہ ممالک سے خطرناک فضلہ وصول کرتا رہا ہے ۔
خطرناک فضلہ کی ریگولیٹری حکام کی مدد سے درجہ بندی کی جاتی ہے جو غیر متعین ذرائع سے نکلتا ہے ۔ خطرناک فضلہ کو عام طریقوں سے تلف نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان باسل کنوینشن کا رکن ملک ہے جس کے تحت پاکستان خطرناک فضلہ کی نقل و حرکت اور کنٹرول کو لیکر پابند ہے اور جو خطرناک فضلہ کی درآمدات اور ٹھکانے لگانے پر پابندی لگاتا ہے ۔ لیکن کبھی کبھی عام فضلہ کے ساتھ خطرناک فضلہ شامل ہوجاتا ہے جیسے پلاسٹک کے فضلہ میں طبی فضلہ کا مل جانا ۔
سن 2019 میں طبی فضلہ کے 624 کنٹینرز درآمد کئے گئے تھے جنہیں آلودہ پایا گیا تھا اور جس کی باقاعدہ شکایت بھی درج کروائی گئی تھی ۔
ترقی پذیر ممالک کے پاس خطرناک فضلہ کو تلف کرنے کے لئے ناکافی جگہیں اور ری سائیکل پروسس کا مہنگا ہونا اس کی درآمدات کی وجہ بنتا ہے ۔
پاکستان جیسے ممالک کو عام مشینی فضلہ جیسے کمپریسر اسکریپ ، ایلمونیم اسکریپ ، پلاسٹک اسکریپ اور لیڈ اسکریپ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ تمام فضلہ پنکھے ، کیبلز ، موٹرز ، فائبر ، کھڑکیاں اور دروازے جیسی اشیاء تیار کرنے کے لئے خام مال کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے ۔
حکومت پاکستان نے 2019 میں جینیوا ، سوئٹزرلینڈ میں پارٹیز کنوینشن ٹو باسل کنوینشن میں یہ مسلہ اٹھایا تھا کہ یہ فضلہ ماحول کے لئے خطرناک ہے کیونکہ یہ مٹی اور پانی کو آلودہ کرتا ہے جبکہ اسے جلانے سے فضائی آلودگی جنم لیتی ہے ۔
سرکاری افسران اور نجی ری سائیکلنگ پروسیس کمپنیز کی ملی بھگت اور بدعنوانی کی وجہ سے بیرونی ممالک کو پاکستان میں نقسان دہ فضلہ درآمد و ڈمپ کرنے کی اجازت مل رہی ہے ۔