عدالت عالیہ میں جمعرات کو ہونے والی سماعت جو عدم اعتماد تحریک پر اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ہے کی سماعت شروع ہوچکی ہے ۔
از خود نوٹس کیس کی سماعت عدالت عالیہ کا پانچ رکنی بینچ کر رہا ہے جس میں جسٹس اعجاز الاحسن ، جسٹس مظہر عالم ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندو خیل چیف جستس کی سربراہی میں سماعت کررہے ہیں ۔
صدر مملکت عارف علوی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر سے جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعظم پوری قوم کے نمائندے نہیں ؟ بیرسٹر ظفر نے مثبت جواب دیا ۔
جسٹس مظہرعالم نے سوال کیا کہ پارلیمان میں آئین کے خلاف ورزی ہوتو کیا اسے تحفظ حاصل ہوگا ؟ پارلیمان کی کاروائی سے کوئی متاثر ہوتو داد رسی کیسے ہوگی ؟ داد رسی نا ہونے کی صورت میں عدالت خاموشی اختیار کرے ؟ علی ظفر نے ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہوگا ، پارلیمان ناکام ہوجائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے ۔ آئین کے تحفظ کے لئے اس کی ہر شق کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے ۔ وفاقی حکومت کی تشکیل اور اسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے ۔
چیف جسٹس نے اس موقع پر سوال کیا کہ عدم اعتماد پر اگر ووٹنگ ہوجاتی تو معلوم ہوجاتا وزیر اعظم کون ہوگا ۔ بیرسٹر عمی ظفر نے جواب دیا کہ وزیر اعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں معاملات کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی ۔
جستس مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہپارلیمان کی ذمہ داری ہے کہ قانون سازی کرے اگر پارلیمان اپنی یہ ذمہ داری نہیں نبھائے گی تو کیا ہوگا ۔ اس کے جواب میں بیرسٹر ظفر نے جواب دیا کہ نئی قانون سازی نہ ہو تو پرانے قانون ہی برقرار رہیں گے ، جمہوریت اور الیکشن کو الگ نہیں کیا جاسکتا ۔
ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر سول سوسائیٹی کے رہنماوں نے چیف جسٹس کو کھلا خط لکھا ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی قانونی حیثیت کے تعین پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئیے ۔
اس کھلے خط میں ممتاز ماہر تعلیم ، وائس چانسلر ، صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں ۔