ملک بھر کے صحافی مجوزہ پاکستان میڈیا ڈیلوپمنٹ اتھارٹی کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ۔ اس حوالہ سے ان کا دھرنا آج دوسرے دن میں داخل ہورہا ہے ۔
پی ایم ڈی اے کے تصور کو تمام صحافتی تنظیموں نے مسترد کردیا ہے ۔ موجودہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری اس متنازعہ پی ایم ڈی اے کو عملی طور پر متحرک کرنے کے لئے پرعزم ہیں لیکن ابھی تک کی جانے والی مزاحمت ان کی راہ کی رکاوٹ بنی ہوئی ہے ۔ یہ اتھارٹی پہلے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کہی جاتی تھی ۔
یہ متنازعہ قانون ہر طرح کے میڈیا جس میں پرنٹ ، ٹیلی ، ریڈیو ، فلم ، سوشل و ڈیجیٹل میڈیا کو مانیٹر کرنے اور انہیں حکومتی سرپرستی میں پابند کرنے کی تجاویز دیتا ہے ۔ ایسے وقت میں اس قانون کا بنانا اور عملی طور پر نافذ کرنا جب پاکستان میں میڈیا کی آزادی پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ آزادئ اظہار میں وطن عزیز دنیا میں 145 ویں نمبر پر موجود ہے جو کسی اچھی صورتحال کی نشاندہی نہیں کرتا ۔ اس پر ایسا قانون میڈیا کی آزادی پر ایک ڈاکہ ہی تصور کیا جاسکتا ہے ۔
میڈیا پر تسلط کی یہ کوشش کسی طور قابل قبول نہیں ہوسکتی ۔ پی ایم ڈی اے مزید نااہلوں کو جنم دینے کا سبب بن سکتی ہے ۔ یہ میڈیا میں اٹھنے والے صحت مند رجحان اور بحث کو ختم کرسکتی ہے ۔ یہ جمہوری آواز کو دبانے کے مترادف ہوگا ۔ دنیا میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں ۔ میڈیا میں تقرری اور بے دخلی کو حکومتی اثر سے محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ میڈیا کو آزادانہ کام کرنے دیا جائے ورنہ یہ ادارہ بھی بیورکریٹک ہوجائے گا ۔
صوبائی ڈومین کے تحت 150 ٹی وی چینلز ، 300 سے زائد ریڈیو اسٹیشنز ، 3 ہزار پبلی کیشنز ، متعدد سوشل و ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز ، 1 ہزار کیبل آپریٹرز اور متعدد فلم پروڈکشنز پر ایک اتھارٹی کے ساتھ حکومت کرنا عملی طور پر ناممکن ہے ۔ گریڈ اکیس بائیس آفیسر کی سربراہی میں ایک ادارہ کسی طور آزاد تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ وفاقی حکومت کی جانب سے میڈیا کو نکیل ڈالنے کے مترادف ہوگا ۔
وزارت اطلاعات کا موقف ہے کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی جعلی خبروں کو حل کرنے کے لئے اس سے بہتر حل نہیں ہوسکتا ۔ جبکہ سائبر کرائم اور ہتک عزت جیسے قوانین حکومت اس ضمن میں استعمال کرتی آئی ہے ۔ یوٹیوب چینلز ، فیس بک پیجز اور انسٹاگرام اکاؤنٹس کو کنٹرول کرنے کی کوشش آزادی اظہار پر حملہ کیطرح ہے ۔ یہ اکاؤنٹس جن پلیٹ فارمز سے چلائے جاتے ہیں وہ پاکستان میں موجود ہی نہیں ہیں ۔
پوری دنیا میں سوشل میڈیا پر چلنے والی جعلی خبروں سے سائبر کرائم کے ذریعہ ہی نبٹا جاتا ہے ۔ پاکستان میں سائبر کرائم سے متعلق قوانین کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔ فیس بک جیسے پلیٹ فارم پر بھی جعلی خبروں کی روک تھام کے لئے مؤثر اقدامات کئے جاتے ہیں ۔ ایسی ایپلی کیشنز بھی مارکیٹ میں موجود ہیں جنہیں حکومت تیار کروا کر نگرانی کے لئے استعمال کرسکتی ہے ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس حکومت کے ساتھ معاملہ قانون اور قواعد کا نہیں بلکہ طاقت اور اختیار کا ہے ۔
حکومت کے کچھ لوگ میڈیا کو خاص منصوبوں کے لئے کنٹرول کرنا چاہتے ہیں جو ذاتی نوعیت کے ہوسکتے ہیں ۔
تبصرے بند ہیں.