پاکستانی تھیٹر کو زندہ کرنے اور اپنے برجستہ جملوں سے لوگوں کو ہنسانے والے عمر شریف 2 اکتوبر کو اپنے بنانے والے کے حضور پیش ہوگئے ۔ عمر شریف صاحب کے انتقال کی خبر نے اردو بولنے سمجھنے والے ممالک میں ایک سوگواریت پھیلادی ۔
گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے عمر شریف صاحب صحت کے مسائل سے دوچار تھے ۔ ان کا علاج مقامی ہسپتال میں ہورہا تھا لیکن دل کی تکلیف کیوجہ سے انہیں بذریعہ ہوائی ایمبولینس امریکا لے جایا جارہا تھا ۔ اس دوران انہیں جرمنی میں اسٹاپ کرنا تھا جہاں تھکن کی وجہ سے عمر صاحب نمونیہ کا شکار ہوئے اور پھر ڈائیلیسز سے بھی گزرنا پڑا آخر میں ان کے دل نے بتدریج کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور اس پر دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا ۔
عمر شریف کا فنی سفر :
چودہ سالہ عمر شریف کراچی تھیٹر کی دنیا کہلانے والے آدم جی ہال کی کینٹین میں چائے پلانے کی مزدوری کیا کرتے تھے ۔ انہوں نے کبھی سپنوں میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ وہ کبھی شہنشاہ ظرافت کہلائیں گے ۔ لیکن قسمت ان پر یوں مہربان ہوئی کہ دنیا نے ان کے عروج و کمال کا نظارہ کیا ۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ ایک تھیٹر ڈرامہ کے فنکار کو ہنگامی بنیادوں پر گھر جانا پڑا تھا جبکہ ڈرامہ شروع ہونے میں صرف 2 گھنٹے باقی تھے ۔ ڈرامہ ڈائیریکٹر کے چہرہ پر ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں ۔ اس وقت کسی نے ڈائیریکٹر کے کان میں کہا کہ کینٹین میں کام کرنے والے بچہ سے یہ رول کروالو وہ لڑکا اس کردار کو بخوبی نبھالے گا ۔ مرتا کیا نہ کرتا ڈائیریکٹر نے عمر کو بلاوا کر وہ رول آفر کیا ۔ عمر نے باوجود یہ کہ کبھی ڈرامہ نہیں کیا تھا اس آفر کو قبول کیا اور کردار کو چار چاند لگا دئیے ۔ جس کے صلہ میں انہیں 5 ہزار روپے ، 1 موٹر سائیکل اور ایک سال کا مفت پیٹرول انعام میں ملا ۔ لیکن اس بھی قیمتی جو چیز عمر کو ملی وہ ناختم ہونے والا کام اور شہرت تھی جو عمر نے اپنے پہلے ڈرامہ سے کمائی تھی ۔ اس حادثاتی ڈرامہ کے بعد عمر شریف نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔
عمر شریف اس زمانہ میں مقبول ہوا جب نہ انٹرنیٹ تھا نہ سوشل میڈیا ۔ وی سی آر کا زمانہ اور کیسٹوں کے دور میں ان کے ڈراموں کی کیسٹوں کے حصول کے لئے لوگوں میں جھگڑا تک ہوجایا کرتا تھا ۔ اس زمانہ کے مقبول عام مزاحیہ پروگراموں میں ففٹی ففٹی نے جھنڈے گاڑے ہوئے تھے ۔ ٹی اسکرین پر سلیم ناصر ، معین اختر اور جمشید انصاری ، اسماعیل تارا اور ماجد جہانگیر کا طوطی بولا کرتا تھا ۔ یہ افراد صرف کامیڈین ہی نہیں تھے اپنے فن میں ید طولیٰ رکھتے تھے ۔ اتنے بڑے ناموں کی موجودگی میں عمر شریف کا مقبول ہونا اپنے آپ میں ایک بہت بڑی بات تھی ۔
عمر شریف پیدائشی کامڈین تھے ۔ ایک کامیڈین کے لئے برجستگی اور حاضر دماغی جیسی صلاحیتوں کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے جو عمر شریف صاحب میں کوٹ کوٹ کر بھری تھیں ۔ عمر شریف نے بغیر اسکرپٹ کے مزاح کو تخلیق کیا جو کسی جینئیس کا ہی کام ہوسکتا ہے ۔ عمر شریف صاحب کی کامیڈی کو سڑک چھاپ کامیڈی بھی کہا جاتا تھا کیونکہ وہ عوامی زبان استعمال کیا کرتے تھے جو امراء کی سماعتوں پر ناگوار گزرتی تھی ۔ اس غریب اور متوسط طبقہ نے عمر شریف کی کیسٹوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان کی شہرت کو آسمان پر پہنچایا ۔ ان کے ڈرامہ بکرا قسطوں پر نے عالمگیر شہرت حاصل کی ۔ اس ڈرامہ کے 5 حصے بنائے گئے تھے ۔
عمر شریف نے اپنی شہرت میں پاکستان فلم انڈسٹری کا بھی رخ کیا ان کے فنی کیرئیر میں متعدد فلمیں بھی شامل ہیں جن میں مسٹر 420 ، مسٹر چارلی اور مس ٹربل مشہور ہیں ۔ بہت کم لوگ اس بات سے آشنا ہیں کہ عمر شریف مصور اور مصنف بھی تھے ۔ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں وہ روحانیت کے قریب ہوگئے تھے ۔ ان کی کتاب فبایٰ آلاء ربکما تکذبان روحانی موضوع پر ان کی پہلی تخلیق تھی ۔ انہوں نے 5 کتابیں لکھیں جو شائع ہوچکی ہیں لیکن ان کی رونمائی ہونا باقی تھی ۔
انہوں نے ہندوستان کے مشہور کامیڈی شو گریٹ انڈین لافٹر چیلنج میں مہمان جج کے فرائض بھی سرانجام دئیے تھے ۔ وہ ہندوستان میں بھی بےحد مقبول تھے ۔ ہندوستان کے چوٹی کے کامیڈینز بھی ان کے فن کے مداح تھے اور ان کے انتقال کی خبر سے سرحد پار بھی لوگ کافی دکھی اور اداس ہیں ۔
انہیں ان کی فلم مسٹر 420 کے لئے بہترین اداکار اور ہدایتکار کے لئے نیشنل فلم ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے 10 نگار ایوارڈ بھی حاصل کئے ۔ ایک ہی برس میں 4 نگار ایوارڈ پانے کا اعزاز بھی اپنے نام کیا ۔ اپنے فن سے ملک کا نام روشن کرنے پر حکومت پاکستان انہیں تمغہ امتیاز سے نواز چکی ہے ۔
عمر شریف کی زندگی کا سفر لالو کھیت سے 19 اپریل 1955 سے شروع ہوا اور وہ جرمنی کے مقامی ہسپتال میں 2 اکتوبر 2021 کو اپنے زندگی کے سفر کو پورا کرکے راہی ملک عدم ہوئے ۔ منگل کو ان کی میت بذریعہ جہاز پاکستان لائی جائے گی جہاں ان کی تدفین کے انتظامات مکمل ہیں ۔
تبصرے بند ہیں.