The news is by your side.

پنڈورا پیپرز : بد عنوانی کے حمام میں ننگے عہدیدار

انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس کی جانب سے کی گئی ایک نئی تحقیق پنڈورا پیپرز میں تہلکہ خیز انکشافات سامنے آئے ہیں ۔

اس تحقیق میں 117 ممالک کے 150 میڈیا ہاؤسز کے 600 صحافیوں نے2 سال کے عرصہ پر محیط تفتیش میں حصہ لیا ۔ پنڈورا پیپرز 12 ملین دستاویزات کا مجموعہ ہے جو دنیا کے امیر اور طاقتور ترین لوگوں کی جانب سے ٹیکس سے بچنے اور دولت چھپانے کے لئے منی لانڈرنگ جیسے عمل کو تقویت دیتا ہے ۔

پنڈورا لیک 64 لاکھ دستاویزات ، تقریبا 30 لاکھ تصاویر ، 10 لاکھ سے زائد ایمیلز اور ڈیڑھ لاکھ ایکسل شیٹس کا مجموعہ ہے ۔ ان فائلوں سے 90 ممالک کے 336 اعلیٰ سطح کے سیاستدان ، موجودہ اور سابقہ رہنماء ، کابینہ کے وزراء ، سفراء اور دیگر عوامی عہدہ داروں کو دولت چھپانے کے لئے آف شور کمپنیوں سے منسلک پایا ۔

اس رپورٹ میں آذربائیجان کے صدر اور ان کے اہل خانہ ، کینیا کے صدر اور ان کے خاندان کے 6 افراد ، روسی صدر بلواسطہ رپورٹ میں شامل ، جمہوریہ چیک کے وزیر اعظم ، اردن کے بادشاہ سمیت درجنوں ریاستی اور حکومتی سربراہان کو ملوث پایا گیا ہے ۔

اس رپورٹ میں 700 پاکستانیوں ، 300 ہندوستانیوں ، 1 ہزار جاپانیوں کے علاوہ متعدد ممالک کے حکومتی اور معروف شخصیات کا نام ثبوتوں کے ساتھ  شامل کیا گیا ہے ۔

پنڈورا کی تفتیش سے یہ بات سامنے آئی کہ کس طرح بنک اور قانونی کمپنیاں پیچیدہ تجارتی ڈھانچہ کے ذریعہ یہ سہولیات فراہم کرتی ہیں ۔ ان فائلوں میں اس بات کا انکشاف بھی ہوا کہ خدمات فراہم کرنے والے اپنے صارفین سے واقف ہی نہیں ہوتے ۔

پاکستان کے جو افراد پنڈورا پیپرز میں شامل ہیں ان میں وزیر خزانہ شوکت ترین اور تین اہل خانہ ، وزیر صنعت و پیداوار مخدوم خسرو بختیار کے چھوٹے بھائی عمر شہریار سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا اور دو اہل خانہ ، وفاقی وزیر آبی وسائل مونس الٰہی ، سینئر صوبائی وزیر خوراک عبدالعلیم خان ، وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی برائے خزانہ مالیات وقار مسعود خان کا بیٹا ، نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر عارف عثمانی اور نیشنل انوسٹمنٹ ٹرسٹ کے منیجنگ ڈائریکٹر عدنان آفریدی ، وزیراعظم کے گشتی سفیر برائے غیر ملکی سرمایہ کاری علی جہانگیر صدیقی ، ابراج کے بانی عارف مسعود نقوی اور معروف کاروباری شخصیت طارق شفیع شامل ہیں ۔

اس کے علاوہ متعدد فوجی عہدیداران اور ان کے اہل خانہ بھی آف شور کمپنیوں کے مالک نکلے ہیں ۔ جن میں سابق کور کمانڈر کی اہلیہ اور بیٹا، جنرل (ر) محمد افضل مظفر کا بیٹا، جنرل (ر) نصرت نعیم، جنرل (ر) خالد مقبول کا داماد، جنرل (ر) تنویر طاہر کی اہلیہ، جنرل (ر) علی قلی خان کی بہن، ایئر مارشل عباس خٹک کے بیٹے اور ریٹائرڈ آرمی آفیسر اور سیاستدان راجہ نادر پرویز شامل ہیں ۔

دستاویزات میں بڑے میڈیا مالکان کے ناموں کا بھی انکشاف ہوا ہے جو آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں ۔ ان میں جنگ گروپ کے پبلشر میر شکیل الرحمٰن، سی ای او ڈان میڈیا گروپ حمید ہارون، پبلشر ایکسپریس میڈیا گروپ سلطان احمد لاکھانی، ٹی وی چینل جی این این کا مالک، گورمے گروپ اور پاکستان ٹو ڈے کے پبلشر عارف نظامی مرحوم شامل ہیں ۔

ان کے علاوہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بیٹے علی ڈار، سندھ کے سابق وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن اور سابق چیئرمین ایف بی آر اور سیکرٹری فنانس سلمان صدیق کے بیٹے یاور سلمان کی بھی ٹیکس چوروں کیلئے محفوظ علاقوں میں کمپنیاں پائی گئیں ہیں ۔

آف شور کمپنیاں کیا ہیں ؟

آف شور کمپنیاں ایک ایسے پیچیدہ نیٹ ورک کو ظاہر کرتی ہیں جو سرحدوں کے پار قائم ہیں، اکثر پیسے اور اثاثوں کی پوشیدہ ملکیت کے لئے استعمال کی جاتی ہیں ۔

یہ غیر ملکی ممالک یا علاقے وہاں ہوتے ہیں جہاں کمپنیاں قائم کرنا آسان ہے اور ایسے قوانین ہیں جن کی وجہ سے کمپنیوں کے مالکان کی شناخت مشکل ہو جاتی ہے ۔ وہاں کم یا کوئی کارپوریشن ٹیکس نہیں ہے۔

ان جگہوں کو اکثر ٹیکس ہیون یا خفیہ دائرہ اختیار کہا جاتا ہے ۔ ٹیکس کے ٹھکانوں کی کوئی حتمی فہرست نہیں ہے لیکن سب سے زیادہ مشہور مقامات میں برٹش اوورسیز ٹیرٹریز جیسے جزائر کیمین اور برٹش ورجن آئی لینڈ کے علاوہ سوئٹزرلینڈ اور سنگاپور جیسے ممالک شامل ہیں ۔

تبصرے بند ہیں.