15 اگست کو طالبان کے مکمل کنٹرول کے بعد افغانستان کے سرکاری دفاتر اور بنک کسی بھی عوامی سہولت وخدمت کی انجام دہی سے قاصر تھے ۔ 19 اگست کو طالبان نے افغانستان اسلامی امارت کے تحت حکومت قائم کی ۔
طالبان کی جانب سے کئے گئے عام معافی کے اعلان کے باوجود لوگ کافی خوفزدہ تھے ۔ سرکاری اہلکار بھی اس خوف کے تحت اپنی ڈیوٹیز پر نہیں پہنچے اور سرکاری دفاتر میں بھی سناٹا چھایا رہا ۔
طالبان نے ملکی انتطامات کو چلانے کے لئے وزرائے خارجہ ، داخلہ اور انٹیلی جینس چیف کا تقرر کردیا ہے ۔
غیر ملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق گل آغا وزیر خزانہ ، سردار ابراہیم وزیر داخلہ اور نجیب اللہ کو انٹیلی جینس چیف مقرر کیا گیا ہے ۔
کابل کے گورنر کے لئے ملا شیریں کو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں جبکہ مئیر کے لئے حمد اللہ نعمانی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں ۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق یہ تمام عارضی تقرریاں ہیں جو کسی مستقل حکومت کا آئینہ نہیں ۔
افغان نیوز ایجنسی نے ٹوئیٹر پر جو معلومات دی ہیں اس کے مطابق طالبان نے ثنا اللہ کو وزیر تعلیم اور عبدالباقی کو اعلیٰ تعلیم کا عارضی سربراہ تعینات کیا ہے ۔
اس کے علاوہ ملکی معاشی پہیہ کو چلانے کے لئے حاجی محمد ادریس کو ملک کے مرکزی بنک کا عبوری گورنر مقرر کیا ہے ۔
تبصرے بند ہیں.