The news is by your side.

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار خبر میں

گلگت بلتستان کے چیف جسٹس کے ایک بیان نے ملک کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف ایک حلفیہ بیان دے کر ایک نیا پینڈورا باکس کھول دیا ہے ۔

رانا ایم شمیم نے اپنے حلفیہ بیان میں کہا ہے کہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل جب نواز شریف اور مریم نواز جیل میں تھے تو اس وقت  کے چیف جسٹس ثاقب نثار جولائی 2018 میں گلگت میں اپنی فیملی کے 27 افراد کے ہمراہ تعطیلات گزارنے آئے تھے اور عدالت کے مہمان خانہ میں ان کا قیام تھا ۔ ایک دن شام کی چائے میں جب میں اپنی اہلیہ اور ثاقب نثار اپنی اہلیہ کے ہمراہ باغ میں چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے تاہم ثاقب نثار فون پر کسی سے رابطہ کرنے میں مصروف تھے اور کسی کو ہدایات بھی دے رہے تھے کہ اس جسٹس سے رابطہ کی کوشش کرو اگر فون پہ رابطہ نہ ہو تو ان کی رہائش گاہ جاؤ اور ان سے درخواست کرو کہ مجھے (ثاقب نثار)کو فون کرے ۔ اگر فون کال لگ جائے تو میری طرف سے یہ پیگام پہنچادینا کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کو عام انتخابات سے قبل ضمانت پر رہائی کسی صورت نہ ملے ۔

اس کے کچھ دیر کے بعد ثاقب نثار کو ایک فون کال موصول ہوتی ہے جسے سن کر وہ مطمئن ہوجاتے ہیں اور چائے کے ایک اور کپ کی فرمائش کرتے ہیں ۔

میں نے بحیثیت ساتھی اور میزبان کے ان سے دریافت کیا کہ یہ کیا معاملہ ہے تو انھوں نے جواب میں کہا کہ آپ یہ بات نہین سمجھیں گے ۔ آپ ایسے ہوجائیں جیسے آپ نے کچھ چنا ہی نہیں ہے ۔

میں نے اپنی مرحومہ اہلیہ اور ثاقب صاحب کی اہلیہ کے سامنے کہا تھا کہ میاں صاحب اور مریم نواز کو سازچ سے پھنسایا گیا ہے آپ کی فون کال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے ۔

ثاقب نثار نے میری اس بات پر ناراضی کا اظہار کیا اور پھر اپنے انداز میں تبدیلی لاکر کہا کہ رانا صاحب پنجاب کی کیمسٹری گلگت سے مختلف ہے ۔

یہ سارا بیان دو مختلف نمبروں سے جیو کے ایک رپورٹر کو واٹساپ سے موصول ہوا ہے ۔

اس خبر پر ردعمل دیتے ہوئے سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے اپنے بیان میں کہا کہ رانا شمیم ان سے اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے خواہاں تھے جو میں نے نہیں کی جس پہ ناراض ہوکر انہوں نے مجھ پر یہ الزام لگایا ہے ۔

ثاقب نثار کے اس بیان کے بعد رانا شمیم کہا کہ میں نے یہ بیان راضاکارانہ طور پر دیا ہے ۔ سابق چیف جسٹس کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں تھا جو میری مدت ملازمت میں توسیع کرتے ۔

تبصرے بند ہیں.