The news is by your side.

عمرانی دور کی غلطیاں جو حکومت کو لے ڈوبیں

0

پاکستان کے 22ویں وزیر اعظم عمران خان نے خود اسمبلیاں تحلیل کرکے اپنی حکومت کا خاتمہ کرلیا ۔

اس وقت پاکستان کے سابق وزیر اعظم سیاسی تنہائی کا شکار ہوچکے ہیں ۔ان کے اتحادی اور دیرینہ ساتھی تک ان کے خلاف ہوگئے ہیں ۔ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کا سامنا نہ کرکے اور بین القوامی سازش قرار دے کر ریاستی استحکام کو متزلزل کردیا ہے ۔

اپنی حکومت خود ہی تحلیل کرچکے ہیں ایک مقبول ترین لیڈر سیاسی تنہائی کا شکار کیسے ہوا یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب مخالفین بھی ڈھونڈ رہے ہیں ۔ سیاسی تجزیہ کار عمران خان کی مشکلات بننے والی چند سیاسی غلطیوں کی نشاندہی کررہے ہیں ۔

سب سے پہلی غلطی سیاسی اشرافیہ پر انحصار ہے ۔ پارٹی کے نظریاتی کارکنوں اور کے بجائے ریلو کٹے جو مختلف جماعتوں سے تحریک انصاف کا حصہ بنے تھے ان پر عمران کا انحصار بہت زیادہ تھا اور یہی لوگ سیاسی مفاہمتوں کی وجہ بھی بنے ۔ پی ٹی آئی میں عمران کے آشیر باد سے شامل ہونے والوں کو میر جعفر ، لوٹے اور ضمیر فروش تک کہا گیا مسلم لیگ نون کے چوہدری سرور پارٹی کے کنڈکٹ سے نالاں رہے اور بالآخر انہوں نے پی ٹی آئی چھوڑ دی ۔ عمر سرفراز چیمہ جیسا نظریاتی کارکن جسے اب پنجاب کی گورنری دی گئی ایک عرصہ تک سائیڈ لائن رہا ۔ عمران کا اپنی پارٹی کے کارکنون تک سے رابطہ نہیں تھا جو سربراہ اور کارکن میں دوری کا سبب بنا۔

سینئیر صحافی ارشاد عارف کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں ریلو کٹو کو انجیکٹ کیا گیا اب صرف پی ٹی آئی کے کارکن ہی نہیں بلکہ دیگر پارٹیوں سے شامل افراد بھی پارٹی چھوڑ کر جارہے ہیں ۔ عمران نے بہت سی فاش غلطیاں کی جو ان کی تنہائی کا سبب بن گئی ہیں ۔

اسٹیبلشمنٹ کو جوتے کی نوک پر رکھنا بھی عمران کی بڑی غلطیوں میں سے ایک ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کے اندرونی معاملات میں گھسنا اور یہ ضد لگانا کہ آرمی چیف کی تعیناتی میرا استحقاق ہے بڑی غلطیوں میں شامل ہے ۔ زمینی حقائق کے سمجھے بغیر اپنے استحقاق کے استعمال پر بضد رہنا آج انہیں اس موڑ پر لے آیا ہے ۔

پارٹی ورکرز میں ہونے والے اختلافات کے خاتمہ میں غیر سنجیدگی اور گروپ بازی روکنے میں ناکامی بھی عمران کی سنگین غلطی ہے ۔ عمران کی لاپرواہی اور چشم پوشی کی وجہ سے متحارب گروپوں کے اختلافات شدید ہوتے گئے ۔

دوسروں ملکوں کے پاکستانی شہری جو پہلی بار ملکی سرکاری مشینری کا حصہ بنے تھے انہوں نے پارٹی کارکنوں اور وزیر اعظم کے مابین خلیج کو وسیع کرنے میں اپنا کردار ادا کیا اور خان کو ایسے مشورے دئیے جن سے بحرانوں میں اضافہ ہوتا رہا ۔ ان غیر سیاسی لوگوں نے پارٹی بیانیہ کے لئے جو اسلوب اختیار کیا وہ غیر پارلیمانی اور غیر شائستہ تھا ۔ جس نے سیاسی اختلافات بڑھائے اور غیر سیاسی استحکام کی وجہ بنا ۔

سینئیر صحافی ارشاد عارف کے مطابق عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانا عمران کی سب سے بڑی غلطی تھی ۔ ملک کا سب سے بڑا صوبہ ایسے شخص کے حوالہ کرنا جو اس اسائنمنٹ کو ہینڈل کرنے کی صلاحیت ہی نا رکھتا ہو کوئی دانشمندانہ اقدام نہیں تھا ۔

عمران نے میڈیا کو اپنا دشمن بنایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میڈیا نے عمران کی غلطیوں کو ہائی لائٹ کرنا شروع کردیا اور عمران کے اچھے کاموں کی وہ تشہیر نا ہوسکی جو ہونی چاہئیے تھی ۔

عمران اپنی ڈاکٹرائن پر عمل ہی نہیں کرسکا صرف بلند بانگ دعووں سے لوگوں کو کب تک مطمئن کیا جاسکتا تھا ۔ نوے دن میں کرپشن کا خاتمہ ، آئی ایم ایف کے سامنے کشکول پھیلانا یا پھر مثالی قانون کے کھوکلے دعوے سے عوام کب تک بہل سکتے وہ حکومتی وعدوں کا حساب مانگنے آگئے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.