سال دو ہزار اکیس ابھی کچھ ٹائم پہلے ہی گزرا ہے ۔ اس سال کی کامیابیوں اور ناکامیوں کی گونج اب بھی جاری ہے ۔
سال دو ہزار اکیس میں جہاں کاروبار زندگی معطل رہا وہیں ماہرین نئی تحقیقات میں مصروف رہے ۔ اس ضمن میں برطانوی اور امیرکی ماہرین نے نئی تحقیقات کیں جن میں دنیا کو نئی مخلوقات کے بارے میں پتہ چلا ۔
برطانوی ماہرین نے نئی تحقیقات کی روشنی میں 550 نئی انواع و اقسام کے جاندار دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے ۔
کیلی فورنیا اکادمی برائے سائنس کے 70 ماہرین نے نئی تحقیقات میں 70 سے زائد نئی انواع کو کھوجا ہے ۔
ان انواع میں سر فہرست تارہ مچھلی ، پائپ ہارس ، نیلے نشانات والی گٹار فش شامل ہیں ۔
اکادمی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ نئی دریافتوں سے حیاتیاتی سلسلہ کو سمجھنے میں بہت مدد ملی ۔ نئی دریافتوں کا تعلق زیادہ تر مڈغاسکر ، میکسیکو اور ایسٹر جزائر سے بتایا جارہا ہے ۔
حیاتیای سلسلہ میں شامل ہونے والے نئے جانداروں میں چودہ اقسام کے بھنورے ، بارہ اقسام کی سی سلگ ، نو اقسام کی چیونٹیاں ، مچھلیوں کی چھ اقسام ، چھ اقسام کے بچھو ، پانچ اقسام کے پھول دار پودے ، چار مختلف شارک ، تین طرح کی نئی مکڑیاں ، این نئی قسم کی سمندری گھاس اور دیگر جاندار بھی شامل ہیں ۔
برطانوی ماہرین جو میوزیم میں کام کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاون کی وجہ سے باہر نکلنا ممکن نہیں تھا لیکن میوزیم عملہ نے لائبریری میں موجود ڈیٹا اور پہلے سے موجود نمونوں پر کام کیا ۔ میوزیم میں موجود فاسلز پر کام کرکے دو نئے گوشت خور ڈائنوسارز کا پتہ لگایا جن میں سے ایک کو چیف ڈریگن کا نام دیا گیا ہے ۔
لندن میں نیچرل ہسٹری میوزیم کے ماہرین نے اس تحقیق کو لاک ڈاؤن منصوبہ کا نام دیا ہے ۔
تبصرے بند ہیں.