The news is by your side.

پاکستان اقبال کے آغوش تخیل کا نگیں

9 نومبر کو پوری قوم شاعر مشرق علامہ اقبال کا یوم پیدائش منا رہی ہے ۔ 1877 میں پیدا ہونے والے اقبال اپنی شاعری سے ایسا انقلاب برپا کردیں گے جو ایک ملک کے قیام کا سبب بن جائے گا ، یہ اس وقت میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ لیکن اقبال نے وہم کو گماں اور گماں کو امکاں میں جس طرح بدلا یہ ان کا ہی کمال ہوسکتا تھا ورنہ شاید مسلمانان ہند کو الگ وطن نصیب ہی نہ ہوتا ۔

اقبال کو اقبال بنانے میں ان کے تین سالہ یورپ کے قیام نے کافی اثرات مرتب کئے ۔ یورپ کا علمی معیار جہاں ان کے سامنے آشکار ہوا وہیں وہ اسلامی فکر کا درست تجزیہ کرنے میں بھی کامیاب رہے ۔ اس 3 سالہ قلیل دور میں انہیں سر ٹامس آرنلڈ جیسے اساتذہ کی رفاقت میسر آئی جس نے انہیں فکر و فلسفہ کے اسرار و رموز سیکھنے میں مدد دی ۔ وہ سر آرنلڈ ہی تھے جنہوں نے اقبال کو فلسفہ سے روشناس کروایا اور شاعری جاری رکھنے کا مشورہ دیا ۔ جنوبی ایشیاء کی سیاسی ، تہذیبی اور فکری زندگی میں اقبال جیسا مرد قلندر سر آرنلڈ کی رہنمائی کے بغیر وہ کردار ادا نہیں کرپاتا جو کیا ۔

اقبال نے کیمرج کے ٹرنیٹی کالج میں اپنی ڈاکٹریٹ کا مقالہ دا ڈیولپمنٹ آف میٹا فزکس ان پرشیا ڈاکٹر میک ٹیگریٹ کی نگرانی میں تحریر کیا ۔ کیمرج میں اقبال نے فلسفیانہ مباحث کے علاوہ تاریخ اسلام اور فارسی شعر و ادب پر بھی کافی کام کیا اور مستفید ہوئے ۔

علامہ اقبال اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی سیاست میں بھی کافی دلچسپی رکھتے تھے ۔ 1911 میں انہوں نے باقاعدہ مسلم لیگ کی رکنیت حاصل کی اور پھر بڑی سرگرمی کے ساتھ اس کے معمولات میں مشغول ہوگئے ۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری اور تقاریر سے برصغیر کے مسلمانوں میں انقلابی روح پھونکی ۔ انہوں نے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک آذاد ریاست کا نظریہ پیش کیا جہاں مسلمان اپنی مذہبی آذادی کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں ۔

1927 میں وہ پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۔ قانون ساز اسمبلی میں انہون نے مسلمانوں کے لئے سرکاری ملازمتوں ، دیہی علاقوں کی بہتری اور خواتین کے طبی مسائل کے لئے بجٹ مختص کروانے کے لئے فعال کردار ادا کیا ۔

1932 میں اقبال تیسری گول میز کانفرنس کے لئے لندن روانہ ہوئے جہاں محمد علی جناح پہلے ہی ہندوستان کی سیاست سے بددل ہوکر پہنچے ہوئے تھے اور ایک کامیاب وکیل کے طور پر اپنی پہچان بنا چکے تھے ۔ اقبال کے قائل کرنے پر جناح واپس وطن آنے پر راضی ہوئے ۔ علامہ اقبال نے جون 1936 سے نومبر 1937 تک جو خط جناح کو لکھے وہ تحریک پاکستان کی اہم دستاویزات میں شمار ہوتے ہیں ۔

1937 میں اقبال کی بینائی خاصی متاثر ہوچکی تھی ۔ لیکن وہ مرتے دم تک اپنی تمام دانش کے ساتھ تحریک پاکستان کے کارکن کے طور پر کام کرتے رہے ۔ 19 اپریل 1938 میں دنیائے اسلام کا یہ عظیم بیٹا اپنے خالق حقیقی سے مل گیا ۔ اقبال کی شاعری آج بھی آنے والے لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے سکتی ہے بشرطیکہ کوئی اس سے فیض اٹھانے والا ہو ۔

تبصرے بند ہیں.