3 دسمبر ملکی تاریخ کا ایک اور شرمناک دن جس پر انسانیت شرمندہ رہے گی ۔ سیالکوٹ کے وزیر آباد روڈ پر واقع راجکو گارمنٹس میں وہ معمول کی صبح تھی جب غیر ملکی پروڈکشن مینیجر پرینتھا کمارا فیکٹری کے انتظامی معاملات پر ورکرز کو ہدایات دے رہے تھے ۔ اس دوران انہوں نے ایک مشین پر لگے اسٹیکر کی طرف اشارہ کرکے اسے اتارنے کا کہا جسے ورکر نے ان سنا کردیا ۔ پرینتھا نے دوبارہ کہنے کے بجائے خود آگے بڑھکر اسٹیکر اتار دیا ۔ جس پر وہاں موجود ملازمین کی جانب سے سخت رد عمل کا اظہار کیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک سانحہ نے جنم لے لیا جس پر انسانیت کی شرمندگی کبھی کم نہیں ہوسکے گی ہاں ماہ و سال کی گرد اس واقعہ کو ماضی کے واقعات کی طرح اوجھل کردے گی لیکن جب تاریخ کے اوراق پلٹائیں جائیں گے یہ واقعہ اسی طرح تکلیف پہنچائے گا جس طرح اس نے آج ہمارے سر جھکائے ہوئے ہیں ۔
ان ورکرز نے جن کے رویوں نے اس واقعہ کی بنیاد رکھی ایک دفعہ نہیں سوچا کہ وہ بندہ اردو لکھنے پڑھنے سے معذور ہے اور ایک بے بنیاد الزام لگا کر اس پردیسی کو تشدد کا نشانہ بنایا ۔ موقع پر موجود ان کے 4 ساتھیوں نے انہیں بچانے کی کوشش کی لیکن وہ ہجوم کی مار برداشت نہ کرتے ہوئے جاں بحق ہوگئے تھے ۔ ہجوم نے اس بات کی پروا نہیں کی اور ان کی لاش کو فیکٹری سے گھسیٹتے ہوئے مین روڈ پر لے آئے اور اس پر بھی بس نہیں کیا ان کی لاش کی بے حرمتی کرتے ہوئے اسے آگ لگادی ۔
اس واقعہ پر جہاں عام آدمی حالت غم میں ہے وہیں مقتدر اداروں اور شخصیات کی جانب سے بھی افسوس اور مذمت کا اظہار کیا جارہا ہے لیکن یہ تو ہر سانحہ کے بعد ہی ہوتا ہے ۔ ہم پتہ نہیں کب اتنے مہذب ہونگے کہ عوامی عدالت لگانے کے بجائے قانون کی پاسداری کرتے ہوئے اس بندہ کو جسے ہجوم نے مجرم بنایا ہوا ہے پولیس کے حوالہ کریں اس پر ایک شفاف تحقیق ہو اور جرم کی نوعیت کا تعین کیا جاسکے ۔ اس طرح کسی انسان کو رسوا کرکے ہم انسانیت کے کس منصب پر فائز ہونگے ۔ توہین رسالت اور توہین مذہب کے نام پر ہم کب تک انسانیت کو شرمندہ کرتے رہیں گے ۔
تبصرے بند ہیں.