پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمہ کے بعد سیاسی ایوانوں میں تاحال مزاحمت جاری ہے ۔ نئی حکومت کی تابعداری سے انکاری پی ٹی آئی کے اکثر اراکین اسمبلی اپنے عہدوں سے مستعفیٰ ہوچکے ہیں ۔
تاہم اس وقت میں بھی پنجاب کے گورنر عمر سرفراز چیمہ اور صدر مملکت عارف علوی تاحال اپنے مورچوں پر ڈتے ہوئے ہیں اور سرکاری کاموں کے لئے نئی حکومت کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں ۔
صدر مملکت نے اس حوالہ سے حکومت عہدیداران کو کافی تنگ کیا ہوا ہے ۔ کسی بھی حکومت کے اراکین کے لئے اپنے عہدوں پر کام کے لئے سب سے پہلے حلف اٹھانا ضروری ہوتا ہے جو صدر مملکت ہی لیتا ہے ۔ لیکن صدر عارف علوی اپنی اس آئینی ذمہ داری سے زیادہ پارٹی کی وفاداری کو نبھاتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔
صدر مملکت نے نو منتخب وزیر اعظم شہباز شریف سے ناسازی طبع کی وجہ سے حلف نہیں لیا اور یہی عذر انہوں نے نو منتخب کابینہ اراکین کی حلف برداری کے وقت دیا ۔
صدر کی معذرت کے بعد سینیٹ کے چئیرمین صادق سنجرانی نے دونوں دفعہ صدر کی آئینی ذمہ داری کو نبھایا اور نو منتخب حکومتی عہدیداران سے حلف لیا ۔
پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا اور بڑے سے بڑا سیاسی مخالف بھی اپنی آئینی ذمہ داریوں سے نہیں بھاگا ۔ پرویز مشرف نے یوسف رضا گیلانی سے حلف لیا تھا ، آصف علی ذرداری نے نواز شریف سے اور صدر ممنون حسین نے عمران خان سے حلف لیا تھا ۔
صدر عارف علوی عمران خان سے اپنی وفاداری نبھانے کے لئے آئینی ذمہ داریوں کو نبھانے سے انحراف کررہے ہیں ۔
صدر کو زبردستی ان کے عہدے سے ہٹانے سے موجودہ حکومت لاچار ہے ۔ کیونکہ صدر کے مواخذہ کے لئے نمبر گیم پورا نہیں ۔