حساس سفارتی مراسلہ کاری و نظام بادشاہی دور سے نافذ ہے جس میں بادشاہ کی جانب سے بھیجی گئی کوئی خبر ایک دن میں ڈھائی سو میل کا فاصلہ طے کرلیتی تھی ۔
اب یہ نظام ڈپلومیٹک کیبل ، ڈپلو میٹک ٹیلی گرام ، ایمبیسی کیبل یا ڈسپیچ اور اردو میں تار یا مراسلہ کہلاتا ہے ۔ یہ تمام الفاظ کسی بھی ملک کے دفتر خارجہ تک اس کے سفارت خانوں سے خفیہ رابطہ کو بیان کرتے ہیں ۔
ایسے ہی ایک پیغام کی آج کل ملک کے طول و عرض میں گونج ہے اور ملک کی مقتدر شخصیت کو کسی ملک کی جانب سے دھمکی کا ذکر زباں ذد عام ہے ۔
یہ مراسلے کیسے لکھے اور بھیجے جاتے ہیں ؟
سفارت خانوں میں ایک انتہائی محفوظ کمرہ ہوتا ہے جس تک صرف دو لوگوں کی رسائی ہوتی ہے ایک سفیر اور دوسرا اس کا معاون ۔ یہ کمرہ جو کیبل روم کہلاتا ہے، اس میں ہونے والی سرگرمیوں سے سفارت خانہ کا دیگرعملہ لاتعلق ہی رہتا ہے ۔
کسی بھی ملک میں تعینات سفارتی مشن کا مقصد اس ملک کی صورتحال سے اپنے ملک کو آگاہ کرنا ہوتا ہے ۔ اس وقت ملک میں جاری تحریک عدم اعتماد بین القوامی طور پر کوئی خفیہ عمل نہیں ۔
اب ایسی صورتحال میں کسی بھی ملک کے سفارتی مشن کی پیشہ ورانہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ جتنی معلومات مصدقہ وسیلے جن میں ذرائع ابلاغ ، مختلف سرکاری و اعلیٰ عہدہ داروں کے ذریعہ حاصل ہونے والی معلومات اور اس ملک میں ہونے والی تبدیلی سفارتی ممالک کے لئے کیا معنی رکھتی ہے اور ان کا ممکنہ ردعمل کیا ہونا چاہئیے ۔ اس طرح کی حساس مراسلہ کاری کیبل روم سے انجام دی جاتی ہے ۔
حساس معلومات کی مسلسل ترسیل ایک سفارت خانہ کی معمول کی کاروائی ہوتی ہے ۔
حساس معلومات کے تبادلہ کے لئے ڈاک ، ایمیل ، موبائل اس مقصد کے لئے استعمال نہیں کئے جاتے ۔ اس کے لئے سفارت خانوں پر مخصوص اینٹینا لگائے جاتے ہیں جو دو ممالک کے درمیان محفوظ پیغام رسانی کے لئے ہوتے ہیں ۔
کیبل روم سے کی جانے والی مراسلہ کاری ایک خاص زبان میں کی جاتی ہے جسے سائفر کہا جاتا ہے ۔ ہر ملک اپنے سفارت کاری کے لئے سائفر کو خاص طور پر ڈیزائن کرواتا ہے جس میں مشینوں کا استعمال بھی کیا جاتا ہے ۔ اس زبان کو سکھانے کے لئے اعلیٰ سرکاری ملازمین کا انتخاب بہت احتیاط سے کیا جاتا ہے ۔ سائفر کو سمجھنے والوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے ۔
سفارت خانوں میں روزانہ کی بنیاد پر موصول ہونے والے حساس پیغامات کو ڈی سائفر کرنے کی ذمہ داری اہم سفارتی اہلکار کی ہوتی ہے ۔
ملک میں زیر بحث کیبل کوڈ کے متعلق سینئیر تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ کسی ملک کا خط نہیں بلکہ سفیر کی بھیجی ہوئی ڈپلومیٹک کیبل ہے ۔