سمندری طوفان اپنی تباہی اور شدید متاثر کرنے والی آفات میں سر فہرست ہیں ۔ ان کے دلچسپ نام کون رکھتا ہے عوام یہ جاننے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں لیکن انہیں پتہ نہیں چلتا کہ آخر گلاب ، بلبل ، نیلوفر جیسے نام کون اور کیوں رکھتا ہے ۔
سمندری طوفانوں کو نام دینے کا سلسلہ 2004 سے شروع ہوا ۔ نام رکھنے میں بنیادی عنصر طوفان کی طاقت اور شدت کا معیار ہوتا ہے ۔ جس رفتار کا طوفان ہوتا ہے اسی حساب سے طوفان کو نام دیا جاتا ہے ۔ 1999 میں بدین اور ٹھٹھہ سے ٹکرانے والے طوفان کو زیرو 2 اے کا نام دیا گیا تھا ۔
عالمی موسمیاتی تنظیم نے دنیا بھر کے سمندروں کو 21 موسمیاتی ڈیوژنز میں تقسیم کیا ہے ۔ جس میں پاکستان کا سمندر بحیرہ عرب نویں نمبر پر موجود ہے ۔ بحیرہ عرب اور خلیج بنگال میں عالمی موسمیاتی تنظیم کے کل 8 رکن ممالک موجود ہیں ۔ جن میں پاکستان ، تھائی لینڈ ، بنگلہ دیش ، میانمار ، سری لنکا ، بھارت ، مالدیپ اور عمان موجود ہیں ۔
بحیرہ عرب میں بننے والے سمندری طوفان ایران، قطر، متحدہ عرب امارات،سعودی عرب اور یمن پر بھی اثر انداز ہو تے ہیں اسی وجہ سے انہیں بھی اب شامل کیا گیا ہے ۔ سمندری طوفانوں کے نام پاکستان، بھارت، بنگلادیش، سمیت کئی ممالک نے دیے ہیں، جبکہ سمندری طوفان گلاب کا نام بھی ماضی میں آنے والے طوفان کے لیے پاکستان نے تجویز کیا تھا مگر اس وقت وہ نام قبول نہیں کیا گیا۔
سمندری طوفانوں کے نام ایسے چنے جاتے ہیں جو کہ عام اور آسان ہوں جنہیں باآسانی پڑھا اور بولا جا سکے ۔ پاکستان نے اب تک کئی نام تجویز کیے ہیں جن میں گلاب، آسنا، صاحب، افشاں، مناہل، شجانہ، پرواز، زناٹا، سرسر، بادبان، صراب، نیلوفر، بلبل، گلناراور واسق شامل ہیں۔ اس وقت سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی کے لیئے خطرہ بننے والے سمندری طوفان گلاب کا نام بھی پاکستان نے ہی تجویز کیا ہے ۔
تبصرے بند ہیں.