حکومت کی جانب سے ایکسچینج کمپنیوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ کیا گیا ہے جس کی شرح 16 فیصد ہوگی ۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چئیرمین ملک بوستان نے اس حوالہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے جو ٹیکس ایسچنج کمپنیوں پر نافذ کیا گیا ہے یہ 2014 میں لگایا گیا تھا جسے 2016 میں واپس لے لیا گیا تھا ۔
پچھلے پانچ سال سے یہ ٹیکس نافذ العمل نہیں تھا مگر اچانک موجودہ حکومت نے اسے لاگو کردیا ہے ۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے بھیجے گئے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ اس ٹیکس کے تحت حکومت کو ایک ارب روپے جمع کروانے کا ٹاسک دیا گیا ہے ۔
ایسوسی ایشن کے ایک اور ترجمان کا کہنا تھا کہ اس ٹیکس کا نفاذ صرف ایکسچینج کمپنیوں پر کیا گیا ہے اور انٹر بنک میں ڈالر کی تجارت اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہے ۔ اس اقدام سے ڈالر کی قانونی مارکیٹ کی حوصلہ شکنی ہوگی اور غیر قانونی ذرائع یعنی حوالہ و ہنڈی کے ذریعہ ڈالر کی تجارت کی حوصلہ افزائی ہوگی ۔
عارف حبیب لیمیٹڈ کے ہیڈ آف ریسرچ طاہر عباس کا کہنا ہے کہ اس ٹیکس کا نفاذ اوپن مارکیٹ میں ہونے والے سودوں پر ہوگا اور انٹر بنک مارکیٹ جو پاکستان میں شرح سود کا تعین کرتی ہے اس پر اس ٹیکس کا نفاذ نہیں کیا گیا ۔
ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اگر ڈالر اوپن مارکیٹ میں 180 روپے کا ہے تو 16 فیصد کے ود ہولڈنگ ٹیکس کے بعد اس کا مجموعی اثر 200 روپے تک پہنچ جائے گا ۔
ایکسچینج کمپنیوں کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکس خدمات پر لاگو ہوتا ہے جبکہ ہم صرف ڈالر کی خرید و فروخت کرتے ہیں ۔
تبصرے بند ہیں.