پاکستانی پارلیمان کے 5 گھنٹے پر محیط اجلاس میں حکومتی مالیاتی بل 2021 کچھ ترامیم کے ساتھ منظور کیا گیا ۔
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ عام استعمال کی اشیاء پر سیلز ٹیکس کی پابندی ختم کردی گئی ہے ۔
وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے جو مالیاتی بل پیش کیا گیا ان میں بغیر برانڈ کی چھوٹی بیکریز اور دوکانوں پر روٹی ، چپاتی ، شیر مال ، سویاں ، نان ، بن اور رسک پر ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے ۔ تاہم فوڈ چینز ، ریسٹورینٹس اور متھائی کی بڑی دکانوں پر ان اشیاء پر سیلز ٹیکس لاگو ہوگا ۔
اس کے علاوہ مقامی ہائبرڈ ، 1800 سی سی گاڑیوں پر بھی سیلز ٹیکس لاگو ہوگا ۔ درآمد شدہ الیکٹرک گاڑیوں پر بھی 12 فیصد ٹیکس کی ادائیگی کی جائے گی ۔ تمام اقسام کی درآمدی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی یکساں چارج کی جائے گی ۔
اس کے علاوہ دودھ کے دو سو گرام کارٹن پر کوئی سیلز ٹیکس نہیں ہوگا تاہم 500 روپے سے زائد قیمت کے فارمولہ دودھ پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لاگو ہوگا ۔
اس موقع پر وزیر خزانہ نے اپوزیشن کے اعتراضات کے جواب بھی دئے ۔ اس حوالہ سے ان کا کہنا تھا کہ ڈبل روٹی ، دودھ ، لیپ ٹاپس پر ٹیکس نہیں لگایا جارہا ۔ اس کے علاوہ گاڑیوں پر ٹیکس کے ضمن میں جو تجاویز ملیں ان میں بھی رد و بدل کی گئی ہے ۔
ضمنی مالیاتی بل کے مقاصد پر بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ٹیکس نیٹ ورک کو بڑھانے اور لوگوں کو ڈاکیومینٹیشن پر آمادہ کرنا ہے ۔
وزیر خزانہ نے اس موقع پر انکشاف کیا کہ پاکستان میں سالانہ 18 سے 20 کھرب کی پرچون کی اشیاء سیل ہوتی ہیں لیکن صرف 5۔3 کھرب روپے کا کاروبار دستاویز کی شکل میں لایا جاتا ہے ۔
اس ضمنی بل میں کوئی ٹیکس نہیں لگایا جارہا بلکہ صارفین کو حکومتی ڈیٹا میں لایا جارہا ہے ۔ کیونکہ دستاویز کا مطلب ٹیکس کی ادائیگی ہے جس سے ہر کوئی بچنا چاہتا ہے ۔
انہوں نے ایوان کو یقین دلاتے ہوئے کہا کہ اس منی بجٹ سے نا مہنگائی میں اضافہ ہوگا نا لوگوں کے معیار زندگی پر منفی اثر پڑے گا ۔
تبصرے بند ہیں.