The news is by your side.

چھانگا مانگا کلچر یا لوٹا کریسی کی ملکی تاریخ

0

آج کل ایک لفظ ہارس ٹریڈنگ بہت سننے میں آرہا ہے ، ہارس ٹریڈنگ کے لئے جو نئی اصطلاح رائج ہوئی وہ الیکٹیبلز کی ہے جبکہ پرانے وقتوں کی سیاسی زبان میں اسے لوٹا کریسی یا چھانگا مانگا کلچر بھی کہا جاتا تھا ۔

اس حوالہ سے تاریخ 1937 کے انتخابات میں یونینسٹ پارٹی پنجاب کا حوالہ دیتی ہے جس نے اسمبلی کی 175 نشستوں میں 99 حاصل کیں لیکن اس کے متعدد سینئر اراکین جن میں میاں ممتاز دولتانہ جیسے بڑے نام شامل تھے نے اپنی سیاسی وفاداری بدل لی اور 1945 تک اس پارٹی کے زیادہ تر افراد آل انڈیا مسلم لیگ کو پیارے ہوگئے ۔ متحدہ ہندوستان میں پنجاب کے نامور سیاست دان ڈاکٹر محمد عالم کو ان کی سیاسی وابستگیاں بار بار تبدیل کرنے پر لوٹا کا خطاب دیا گیا جو بعد ازاں ان کے نام کا حصہ ہی بن گیا ۔ انہوں نے اپنی زندگی میں 5 پارٹیوں کے لئے سیاست کی ۔

چھانگا مانگا کلچر کی ابتداء نواز شریف دور میں ہوئی جب وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو آذاد اراکین اسمبلی کو ٹھہرانے کے لئے چھانگا مانگا کا انتخاب کیا جاتا وہاں سے اراکین اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے براہ راست اسمبلی پہنچائے جاتے تھے جہاں وزیر اعلیٰ کے عہدہ کے لئے رائے شماری ہورہی ہوتی تھی ۔ یوں چھانگا مانگا کلچر کا لفظ  ملکی سیاسی لغت میں شامل ہوا ۔

23 اکتوبر 1989 میں محترمہ بینطیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی جس کے لئےیکم نومبر 1989 کو ووٹنگ ہونی تھی درمیان کے 5 دنوں میں اراکین اسمبلی کی سیاسی وابستگیاں خریدنے کے لئے ہر حربہ آزمایا گیا ایسی ترغیبات دی گئیں جو اراکین کے ایمان کی قیمت بن گئیں ۔ محترمہ نے 12 ووٹوں کی کمی سے تحریک کو ناکام بنادیا اصل میں یہ تحریک ناکام نہیں ہوئی بلکہ اللہ کو حاظر ناظر جان کر جو حلف اٹھائے گئے تھے اس کے خلاف ورزی ہوئی تھی ۔

پاکستان کی تاریخ میں ہارس ٹریڈنگ کی بدترین شکل 1993 کے سیاسی بحران میں نظر آئی جب صدر غلام اسحاق نے نواز شریف کی حکومت کو تحلیل کیا تھا ۔ نواز شریف نے اپنی حکومت کے قیام کے لئے ہر غیر اخلاقی حربہ کو آزمایا اور اپنے حامیوں کو ایک بار پھر اسلام آباد کے ہوٹل میں ٹھہرا کر چھانگا مانگا کی تاریخ کو دہرایا ۔ اس عمل میں اراکین اسمبلی کی سیاسی وابستگیاں کبھی کسی کے ساتھ ہوجاتی اور کبھی کسی کے ساتھ اس رجحان کو لوٹا کریسی کا نام دیا گیا اور جو اراکین بار بار اپن ی وابستگیاں بدل رہے تھے انہیں باقاعدہ لوٹا کے خطاب سے نوازا گیا ۔

1993 میں ہی انتخابات سے کچھ عرصہ قبل صدر مملکت نے ایک آرڈیننس نافذ کیا جس میں فلور کراسنگ کو خلاف قانون قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ جو سیاسی وابستگی تبدیل کرے گا اس کی پارٹی رکنیت ختم ہوجائے گی لیکن جیسے ہی اسمبلیاں قائم ہوئیں اس آرڈیننس کو ایوان میں پیش ہی نہیں ہونے دیا گیا یوں یہ آرڈیننس میعاد گزرجانے کے بعد کالعدم ہوگیا ۔

ملک میں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں مگر سیاسی لوٹے سیاسی عمل کو اپنے مفاد کی بھینٹ چڑھا کر اسے آلودہ کرتے رہیں گے ۔ اس مسلہ کا ایک ہی حل ہے کہ فلور کراسنگ یا لوٹا کریسی کے خلاف سخت قانون کا نفاذ کیا جائے اور اراکین کو پابند کیا جائے کہ وہ حلف اٹھانے کے بعد جس پارٹی کا حصہ بنیں گے اپنی باقی مدت میں اسی پارٹی کے وفادار رہیں گے دوسری صورت میں ان کی رکنیت ختم ہوجائے گی ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.