The news is by your side.

ری ارتھنگ : میتوں کی ماحول دوست تدفین

0

میتوں کی ماحول دوست تدفین کا نیا طریقہ ری ارتھنگ کو کافی ممالک میں متعارف کروایا گیا ہے ۔ اس طرز تدفین کو دوبارہ مٹی بنائے جانے کا نام دیا جارہا ہے ۔

یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی میں تدفین کے اس عمل کو آخری رسومات کی ادائیگی کے کمرشل ادارہ نے شروع کیا ہے ۔

اس طرز تدفین کو ری ارتھنگ کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ جس خول یا تابوت میں یہ عمل انجام دیا جاتا ہے وہاں یک خلیاتی جانداروں اور جدید گرین ٹیکنالوجی  کی مدد سے تابوت میں رکھی میت 40 دنوں میں انسانی جسم کو نامیاتی برادہ میں تبدیل کردیتی ہے ۔ انسانی جسم کے نامیاتی برادہ یا بھربھری مٹی میں منتقلی ہی ری ارتھنگ کہلاتی ہے ۔

جرمنی یا یورپ میں میتوں کی اس طرح تدفین پہلی بار انجام دی گئی ۔ اس عمل کی تائید میں کلیسائی تنظیموں کی حمایت بھی شامل ہوچکی ہے ۔ کلیسا کے ترجمان کے مطابق یہ تدفین کا بہت ہی اچھا ماحول دوست طریقہ ہے جس میں میت کو 40 دن مخصوص تابوت میں رکھا جاتا ہے اور انسانی جسم مادی تبدیلیوں سے گزر کر قدرتی کھاد میں ڈھل جاتا ہے ۔

یورپ میں میتوں کو نذر آتش کرکے اس کی راکھ کو دفنانے کا رجحان عام ہے جس سے فضا میں 1 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا اخراج ہوتا ہے جو کسی میت کو نذر آتش کرنے کے عمل کے دوران پیدا ہوتی ہے ۔

ری ارتھنگ کے عمل میں کاربن گیسوں کا اخراج نہیں ہوتا تابوت میں گھاس پھوس ، تنکے اور پھولوں پر میت کو رکھ دیا جاتا ہے اور 40 روز بعد نامیاتی مٹی نکال کر اسے دفن کردیا جاتا ہے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.